Thursday 18 June 2015

ماہ شعبان اور شب برات،تحقیقی جائزہ

0 comments

 ماہ شعبان اور شب برات،ایک مکمل تحقیق    

ماہِ شعبان کو شعبان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ شعبان شعِب یشعَب سے ماخوذ ہے،جس کا معنی ہے نکلنا، ظاہر ہونا، پھوٹنا چونکہ اس مہینہ میں خیر کثیر پھوٹتی پھیلتی ہے اور بندوں کا رزق تقسیم ہوتا ہے اور تقدیری کام الگ ہوجاتے ہیں، اس وجہ سے اس مہینہ کا نام شعبان رکھ دیا۔
(غیاث اللغات)
شعبان اسلامی سال کا آٹھواں قمری مہینہ ہے، جس کا نام ہی خیر و برکت کی تقسیم انعامات ربانی اور عطایا الٰہی کی فراوانی پر دلالت کرتا ہے۔
شعبان تشعب سے ہے، جس کے معنی تقریب یعنی پھسلانااور شاخ در شاخ ہونا ہے، ان معنوں کی تائید میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا اس ماہ کا نام شعبان اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس میں روزہ رکھنے والے کو شاخ در شاخ بڑھنے والی خیر و برکت میسر ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں شعبان شعب سے مشتق ہے، جو اجتماع کے معنی دیتا ہے، بزرگوں کا ارشاد ہے کہ اس مقدس مہینہ میں خیر کثیر کا اجتماع ہوتا ہے اس لئے اسے شعبان کہا جاتا ہے، شعبان کے لغوی معنی جمع کرنا اور متفرق کرنا دونوں آتے ہیں۔
عمدۃ القاری میں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ لوگ چونکہ ادھر ادھر متفرق ہونے کے بعد اس مہینہ میں جمع ہوتے ہیں اس بناء پر اسے شعبان کہا جاتا ہے۔
بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ شعبان شعب سے ہے وہ راستہ جو پہاڑ کو جاتا ہو اسے شعب کہتے ہیں، ظاہر بات ہے کہ ایسا راستہ ہمیں بلندی پر لے جاتا ہے جہاں پہنچ کر ہم مسرت محسوس کرتے ہیں، تو شعبان وہ پاکیزہ مہینہ ہے جو انسانوں کو روحانیت کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ (صدائے محراب، ص ۴۲۳)
شعبان میں پانچ حرف ہیں: ش، ع، ب ،ا، ن۔ ان میں سے ہر حرف ایک ایک بزرگی کی نشاندہی کرتا ہے، ش کا اشارہ شرف کی طرف ہے، ع بلندی کی طرف اشارہ کرتا ہے، ب سے مراد برّ یعنی نیکی ہے، الف سے مراد الفت اور ن کا حرف نور کی جانب اشارہ کرتا ہے، یہ پانچوں انعامات اس ماہِ شعبان میں اللہ کی جانب سے بندوں کو عطا کئے گئے ہیں۔
(نزہتہ المجالس ۱؍۸۱۳، غنےۃ الطالبین ۶۵۳)
ماہ شعبان اور رسولِ خدا شهر رمضان شهر الله وشهر شعبان شهرى شعبان المطهر ورمضان المكفر (ابن عساكر عن عائشة وسنده ضعيف)
حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے، شعبان میرا مہینہ ہے۔(الفردس بما ثور الخطاب، للدیلمی۲؍۵۷۲)

ماہ شعبان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اور اس کو اپنی جانب منسوب کیا ہے، اس کے بعد شعبان کے دیگر فضائل ذکر کرنے کی حاجت نہیں رہتی، کیونکہ جو مہینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا وہ عظمت و بزرگی میں بھی غیر معمولی مقام رکھتا ہوگا۔
یاد رہے کہ اس حدیث کی سند نہایت کمزور ہے۔   
عن أنس قال سئل النبي صلى الله عليه و سلم أي الصوم أفضل بعد رمضان قال شعبان لتعظيم رمضان قال الترمذي حديث غريب وصدقة عندهم ليس بذاك القوي قلت ويعارضه ما رواه مسلم من حديث أبي هريرة مرفوعا أفضل الصوم بعد رمضان صوم المحرم
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ روزوں میں بہتر روزے کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کے روزے، رمضان کے روزوں کی تعظیم کیلئے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ ۲؍۴۱۵)
  - رواه الترمذي في سننه(2/ 86)أبواب الزكاة ،حديث رقم (657) . وقال : هذا حديث غريب ، وصدقة بن موسى ليس بذلك القوي . ورواه الطحاوي في شرح معاني الآثار كتاب الصيام ،حديث رقم (1778) ورواه ابن الجوزي في العلل المتناهية (2/65،66) ، حديث (914) . وقال: وهذا حديث لا يصح ، قال يحيى بن معين : صدقة بن موسي ليس بشيء ، وقال ابن حبان : لم يكن الحديث من صناعته ، فكان إذا روى قلب الأخبار فخرج عن حد الاحتجاج به .ا.هـ . ويعارضه الحديث الصحيح الذي أبو هريرة والذي سبق تخريجه ص (93) من هذا الكتاب (( أفضل الصيام بعد شهر رمضان شهر الله المحرم )
   یہ حدیث بھی غریب ہے،اور اس صحیح حدیث کے معارض ہے جس میں فرمایا گیا رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ محرم کا ہے۔
   كان أحب الشهور إلى رسول الله صلي الله عليه وسلم أن يصومه شعبان ثم يصله برمضان ))(1).
__________
(1) - رواه الإمام أحمد في مسنده ( 6/ 188) . ورواه أبو داود في سننه (2/ 812) كتاب الصيام ، حديث رقم ( 2431) . ورواه النسائي في سننه (4/199) كتاب الصيام ، باب صوم النبي صلى الله عليه وسلم .ورواه ابن خزيمة في صحيحه (3/ 282) جماع أبواب صوم التطوع، حديث رقم (2077) .ورواه الحاكم في المستدرك (1/434) ، كتاب الصوم ، وقال : هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه . ووافقه الذهبي في تلخيصه ).
     آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت زیادہ پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملا دیں۔(کنز العمال ۸؍۴۵۶)
     حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول آپ شعبان کے مہینے میں جتنے روزے رکھتے ہیں میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہوجاتے ہیں، اور اسی مہینے میں بارگاہ رب العٰلمین میں اعمال لے جائے جاتے ہیں، تو میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال لے جائے جائیں تو میں روزے سے ہوں۔(نسائی ۱؍۲۲۳، کنز العمال ۸؍۴۵۶)
     
بعض احادیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ مکمل شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
ما رأيت رسول اللهﷺ يصوم شهرين متتابعين، إلا أنه كان يصل شعبان برمضان ۔۔۔ صحيح النسائي: رواه أبو داود والنسائي والترمذي وحسنه.
2174
میں نے نبیﷺ کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتےہوئے نہيں دیکھا، لیکن آپﷺ شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے۔۔

دوسری احادیث میں وارد ہے کہ نبی کریمﷺ شعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھتے تھے۔ سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے:
سألت عائشة رضي الله عنها عن صيام رسول الله ﷺ فقالت: كان يصوم حتى نقول: قد صام، ويفطر حتى نقول: قد أفطر، ولم أره صائما من شهر قط أكثر من صيامه من شعبان. كان يصوم شعبان كله. كان يصوم شعبان إلا قليلا ۔۔۔ صحيح مسلم: 1156
میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نبیﷺ کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہنے لگیں: آپﷺ روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں، اورجب آپ ﷺ روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے، میں نے نبی ﷺ کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ ﷺ شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے۔
تطبیق
بعض محدثین کی رائے یہ ہے کہ نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور مہینہ میں مکمل مہینہ کے روزے نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے سیدہ ام سلمہ والی حدیث کو اکثر پر محمول کیا ہے، کیونکہ اگر کوئی مہینہ کے اکثر ایام میں روزے رکھے تو لغت میں بطور مبالغہ یہ کہنا جائز ہے کہ اس کے مکمل مہینہ کے روزے رکھے۔
جبکہ دیگر محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ مختلف اوقات میں تھا، کچھ سالوں میں تو آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھا کرتے اور بعض سالوں میں شعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھتے۔

پہلی رائے بہتر محسوس ہوتی ہے، کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
ولا أعلم نبي الله ﷺ قرأ القرآن كله في ليلة. ولا صلى ليلة إلى الصبح. ولا صام شهرا كاملا غير رمضان ۔۔۔ صحيح مسلم: 746
میرے علم میں نہيں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید ختم کیا ہو، اورصبح تک ساری رات ہی نماز پڑھتے رہے ہوں، اوررمضان کے علاوہ کسی اورمکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں

اسی طرح صحیحین میں سیدنا ابن عباس  سے بھی مروی ہے:
ما صام النبيﷺ شهرا كاملا قط غير رمضان
نبی ﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ کےمکمل روزے نہيں رکھے۔

شعبان میں کثرتِ صیام کی حکمت
سیدنا اسامہ بن زید  سے مروی ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:
ذلك شهر يغفل الناس عنه ، بين رجب ورمضان ، وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين ، فأحب أن يرفع عملي ، وأنا صائم ۔۔۔ صحيح النسائي: 2356
رواه الإمام أحمد في مسنده (5/201) . ورواه النسائي في سننه (4/102) كتاب الصيام . وقال الألباني : وهذا إسناد حسن ، ثابت بن قيس صدوق يهم - كما في التقريب - وسائر رجاله ثقات . يراجع : سلسلة الأحاديث الصحيحة (4/522) . حديث رقم (1898) .
 یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جو رجب اوررمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں
حديث : (( فضل شهر شعبان كفضلي على سائر الأنبياء )) قال ابن حجر : إنه موضوع كما في كتابه تبين العجب
انظر : كتاب كشف الخفاء 2 / 110 للعجلوني طبعة مؤسسة الرسالة لعام 1405هـ و كتاب المصنوع لعلي بن سلطان القاري 1 / 128 طبعة مكتبة الرشد لعام 1404هـ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کی بزرگی دوسرے مہینوں پر اسی طرح ہے جس طرح مجھے تمام نبیوں پر بزرگی دی گئی ہے۔ (غنےۃ الطالبین ص۲۶۳)
   يہ حدیث موضوع ہے۔

ماہ شعبان اور شاگردانِ رسولِ خدا                
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بزرگ اصحاب شعبان کا چاند دیکھ کر قرآن کریم (زیادہ) پڑھا کرتے تھے، مسلمان اپنے مال سے زکوٰۃ بھی نکالا کرتے تھے تاکہ غریب اور مسکین لوگ فائدہ اٹھا سکیں اور ماہ رمضان کے روزے رکھنے کیلئے ان کا کوئی وسیلہ بن جائے، حاکم لوگ قیدیوں کو بلا کر ان میں سے جو حد جاری کرنے کے لائق ہوتے تھے ان پر حد جاری کرتے تھے، باقی قیدی رہا کردئیے جاتے تھے، کاروباری لوگ بھی اسی ماہ میں اپنا قرض ادا کیا کرتے تھے اور دوسروں سے جو کچھ وصول کرنا ہوتا تھا وصول کرلیا کرتے تھے۔(غنیۃ الطالبین ص۶۵۳)
قال ابن رجب: روينا بإسناد ضعيف عن أنس (591) قال: كان المسلمون إذا دخل شعبان انكبوا على المصاحف فقرءوها، وأخرجوا زكاة أموالهم تقوية للضعيف والمسكين على صيام رمضان.
وقال سلمة بن كهيل: كان يقال: شهر شعبان شهر القراء. وكان حبيب بن أبي ثابت إذا دخل شعبان قال: هذا شهر القراء. وكان عمرو ابن قيس المُلائي إذا دخل شعبان أغلق حانوته، وتفرغ لقراءة القرآن. انتهى ملخصا من "لطائف المعارف بما لمواسم العام من الوظائف" تأليف الحافظ ابن رجب الحنبلي - رحمه اللَّه -.
    اس كي سند بهي واهٍ ہے۔

عظمتوں والی رات شبِ برات                             

حم oوالکتٰب المبینo انا انزلنٰہ فی لیلۃ مبٰرکۃ اناکنا منذرینoفیھا یفرق کل امر حکیمo امرا من عندنا انا کنا مرسلینo
قسم ہے اس کتاب واضح کی کہ ہم نے اس کو (لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ) ایک برکت والی رات میں اتارا ہے (کیونکہ) ہم (بوجہ شفقت کے اپنے ارادہ میں اپنے بندوں کو) آگاہ کرنے والے تھے (یعنی ہم کو یہ منظور ہوا کہ ان کو مضرتوں سے بچانے کیلئے خیر و شر پر مطلع کردیں، یہ قرآن کو نازل کرنے کا مقصد تھا، آگے اس شب کی برکات و منافع کا بیان ہے کہ ) اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری طرف سے حکم (صادر) ہو کر طے کیا جاتا ہے (یعنی سال بھر کے معاملات جو سارے کے سارے ہی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں جس طرح انجام دینے اللہ کو منظور ہوتے ہیں اس طریقے کو متعین کر کے ان کی اطلاع متعلقہ فرشتوں کو کرکے ان کے سپرد کردےئے جاتے ہیں، چونکہ وہ رات ایسی ہے اور نزول قرآن سب سے زیادہ حکمت والا کام تھا اس لئے اس کے لئے بھی یہی رات منتخب کی گئی۔
(معارف القرآن ۷؍۵۵۷)
ان آیات میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد حضرت عکرمہ اور مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک شب برأت ہے (روح المعانی ۳۱؍ ۰۷۱) چنانچہ اس تفسیر پر مذکورہ آیات سے ماہِ شعبان کی پندرہویں شب کی خصوصیت سے بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
 البتہ حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ مشہور تفسیر اس آیت کی اکثر کے نزدیک یہ ہے کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے شب برأت مراد نہیں، کیونکہ دوسرے موقع پر ارشاد ہے انا انزلناہ فی لیلۃ القدر کہ ہم نے قرآن لیلۃ القدر میں نازل کیا اور یہاں فرما رہے ہیں کہ ہم نے لیلۃ مبارکہ میں نازل کیا اور یہ ظاہر ہے کہ نزول سے مراد دونوں جگہ نزول دفعی ہے تدریجی نہیں کیونکہ وہ تو ۲۳ سال میں ہوا، اور نزول دفعی ایک ہی مرتبہ ہوا ہے اس لئے لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہوگی یہ قرینہ قویہ ہے اس بات کا کہ یہاں بھی لیلۃ القدر ہی مراد ہے۔
لیکن ایک قول بعض کا یہ بھی ہے کہ لیلۃ مبارک سے مراد شب برأت ہے، باقی رہا یہ اعتراض کہ اس سے لازم آتا ہے کہ نزول دفعی دو مرتبہ ہوا، تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ نزول دفعی دو مرتبہ بھی اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک رات میں حکم نزول ہوا اور دوسری میں اس کا وقوع ہوا، یعنی شب برأت میں حکم ہوا کہ اس دفعہ رمضان میں جو لیلۃ القدر آئے گی اس میں قرآن نازل کیا جائے گا، پھر لیلۃ القدر میں اس کا وقوع ہوگیا۔۔۔ تو انا انزلناہ فی لیلۃ القدر میں مراد حقیقی نزول ہے کہ وہ لیلۃ القدر میں ہوا اور انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ میں حکمی نزول ہے کہ شب برأت میں ہوا۔۔۔ تو احتمال اس کا بھی ہے کہ (لیلۃ مبارکہ سے) شب برأت مراد ہو۔۔۔درمنثور میں بروایت ابن جریر ابن المنذر و ابن ابی حاتم عکرمہ سے یہ تفسیر منقول ہے۔
(خطاب حکیم الامت بمقام تھانہ بھون ۶۳۳۱ھ ۳۱ شعبان، خطبات حکیم الامت ۷؍۵۶۳)
اسماء
ماہ شعبان میں پندرہ کی رات کو خاص فضیلت بزرگی و شرافت حاصل ہے، اور مختلف روایات میں اس رات کے کئی نام ذکر کئے جاتے ہیں:
(۱) لیلۃ المبارکۃ۔۔۔ برکتوں والی رات
(۲) لیلۃ الرحمۃ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے نزول کی رات
(۳) لیلۃ الصَّک۔۔۔ دستاویز والی رات
(۴) لیلۃ البراء ۃ۔۔۔ دوزخ سے بری ہونے کی رات۔(روح المعانی ۳۱؍۰۷۱)
(۵) عرف عام میں اسے شب برأت کہتے ہیں، فارسی میں شب کے معنی رات کے ہیں اور برأت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہونے اور نجات پانے کے ہیں۔
چونکہ اس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کو شب برأت کہتے ہیں۔(فضیلت کی راتیں،۵۳)
سوائے چند کے شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ابو سعید بن منصور کے حوالے سے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ شب قدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ افضل کوئی رات نہیں۔ سوائے چند کے (ماثبت بالسنۃ فی ایام السنۃ عربی اردو ۵۵۳، ۵۹۱)
۔۔۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کی پندرہویں رات کو میرے پاس جبرئیل آئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ ایسی رات ہے جس میں آسمان اور رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں لہٰذا اٹھئے اور نماز پڑھئے اور اپنے سر اور دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائیے، میں نے پوچھا اے جبرئیل یہ رات کیسی ہے؟ کہا یہ ایسی رات ہے کہ جس میں رحمت کے تین سو دروازے کھولے جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو بخش دیتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں، مگر جو شخص جادوگر ہو یا کاہن، کینہ رکھنے والا ہو یا ہمیشہ شراب پینے والا ، زنا پر اصرار کرنے والا ہو یا سود کھانے والا، والدین کا نافرمان ہو یا چغل خور، رشتہ داری توڑنے والا ، ان لوگوں کیلئے معافی نہیں ہوتی جب تک ان تمام چیزوں سے توبہ نہ کرلیں اور ان برے کاموں کو چھوڑ نہ دیں۔(درۃ الناصحین اردو ۲؍ ۶۰۲)
       اس روايت ميں راوی مجہول ہے۔
أخرجه البزار (1/157 رقم 80) قال الهيثمى (8/65) فيه عبد الملك بن عبد الملك ذكره ابن أبى حاتم فى الجرح والتعديل ولم يضعفه وبقية رجاله ثقات . والبيهقى فى شعب الإيمان (3/380 ، رقم 3827) . وأخرجه أيضًا : ابن عدى (5/309 ، ترجمة 1460 عبد الملك بن عبد الملك) وقال قال البخارى : فيه نظر . قال ابن عدى : وعبد الملك بن عبد الملك معروف بهذا الحديث ولا يرويه عنه غير عمرو بن الحارث وهو حديث منكر بهذا الإسناد .

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب اپنی مخلوق کی طرف نظر رحمت فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ ور کے۔
(ابن حبان ۲۱؍ ۱۸۴، رواہ البیہقی فی فضائل الاوقات،۹۱۱)

قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها . فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا . فيقول ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا من مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا حتى يطلع الفجر )
 في الزوائد إسناده ضعيف لضعف ابن يسرة واسمه أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن أبي يسرة . قال فيه أحمد بن حنبل وابن معين يضع الحديث
 [ ش ( فقوموا ليلها ) أي الليلة التي هي تلك الليلة . فالإضافة بيانية . وليست هي كالتي في قوله فصوموا يومها ] .
قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا أو موضوع
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ایک پکارنے والا پکارتا ہے کیا کوئی مغفرت کا طالب ہے؟ کہ میں اس کی مغفرت کردوں کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا دامن گوہر مراد سے بھر دوں،کوئی مبتلا ہو تو میں اس کو عافیت بخشوں،وغیرہ وغیرہ صبح تک اعلان ہوتے رہتا ہے،اور دوسری روایات میں اس قدر اضافہ ہے: اس وقت خدا سے جو مانگتا ہے اس کو ملتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔(رواہ البیہقی فی شعب الایمان ۳؍۳۳۸۳، رواہ البیہقی فی فضائل الاوقات ص۵۲۱)
یہ روایت مختلف الفاظ سے مختلف سندوں سے مروی ہے۔ضعیف ہے۔
حضرت کعب کی روایت ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب اللہ تعالیٰ جبرئیل کو جنت میں بھیج کر کہلواتے ہیں کہ پوری جنت سجا دی جائے، کیونکہ آج کی رات آسمانی ستاروں، دنیا کے شب و روز، درختوں کے پتوں، پہاڑوں کے وزن، اور ریت کے ذروں کی تعداد کے برابر اپنے بندوں کی مغفرت کروں گا۔ (ماثبت بالسنۃ اردو ۲۹۱)
عرب کے قبائل میں سے سب سے زیادہ بنو کلب کی بکریاں تھیں، ان تمام بکریوں کے جسموں پر جتنی تعداد میں بال تھے ان سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں اللہ تعالیٰ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں، یہاں کوئی خاص تعداد مراد نہیں بلکہ تعداد کی زیادتی بیان کرنا مقصود ہے، کہ ایک بکری کے جسم پر کتنے بے شمار بال ہوتے ہیں اور پھر ان کثیر تعداد بکریوں کے جسم پر کتنے بے حساب و بے شمار بال ہونگے ان سے بھی بڑھ کر اللہ رب العزت اپنے بندوں کو معاف فرماتے ہیں کوئی مانگنے والا، جھولی پھیلانے والا تو ہو۔ ؂
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يَغْفِرُ اللهُ مِنَ الذُّنُوبِ أَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ "، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ: إِنَّمَا الْمَحْفُوظُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ مُرْسَلًا
   یہ حدیث مرسل ہے۔

       فیصلے کی رات                      

امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ سرتاج دو عالم      صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ اس شب میں یعنی شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! (مجھے تو معلوم نہیں، آپ ہی بتا دیجئے کہ) کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھدیا جاتا ہے، اور بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھا جاتا ہے، اس رات میں بندوں کے اعمال اٹھالئے جاتے ہیں اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں۔ (رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ص ۵۱۱)
               مولانا محمد رفعت قاسمی (مدرس دارالعلوم دیوبند) رقم طراز ہیں ’’دنیا بھر کی حکومتوں میں یہ دستور ہے کہ وہ اپنے وسائل اور پالیسی کے مطابق آمدنی و اخراجات کا بجٹ ایک سال پہلے ہی تیار کرلیتی ہیں، ان کے پارلیمانی اور وزراء کے اجلاسوں کی میٹنگ میں اس بجٹ پر مہینوں بحث ہوتی ہے، یہ بجٹ اپنی حکومت کے اغراض و مقاصد کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ آنے والے سال میں ترقی کی کن منازل کو طے کرنا ہے۔
بعینہٖ شعبان کی چودہویں اور پندرہویں تاریخوں کے درمیان ہر سال خالقِ کائنات اپنی وسیع تر مملکت دنیا کے بجٹ کا اعلان کرتا ہے اور یہ بجٹ زندگی کے ہر زاوئیے پر محیط ہوتا ہے، اس رات میں یہ بھی فیصلہ ہوتا ہے کہ آنے والے سال میں کتنے لوگوں کو دنیا میں بھیجنا ہے اور کتنے لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کے بعد واپس بلایا جائے گا، کتنا خرچ کرنے کی اجازت ملے گی اور کس سے کتنا کچھ واپس لے لیا جائیگا، شعبان کی پندرہویں شب میں عالم بالا میں حکیم و خبیر و دانا مدبّر کے حکم کے مطابق دنیا والوں کیلئے جو روز ازل میں فیصلے کئے گئے تھے ان میں سے ایک سال کا جامع بجٹ کارکنانِ قضاء و قدر یعنی خاص مقرب فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے ، اس دنیا میں سب کچھ وہی ہوتا ہے جو فرشتوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ (مسائل شب برأت ص۹۲)
* حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو خدا کی طرف سے ملک الموت کو ایک فہرست دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ جن جن لوگوں کا نام اس فہرست میں درج ہے ان کی روحوں کو اس سال وقت مقررہ پر قبض کرنا، کوئی بندہ تو باغوں کے درخت لگا رہا ہوتا ہے، کوئی شادی کرتا ہوتا ہے، کوئی تعمیر میں مصروف ہوتا ہے، حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔(ماثبت بالسنۃ ص۳۵۳، لطائف المعارف ۸۴۱)
    اسی مضمون کی متعدد روایات حافظ ابوبکر عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی نے اپنی مشہور کتاب ’’المصنَّف‘‘ میں ذکر کی ہیں ، دیکھئے۔(مصنف عبدالرزاق ۴؍۶۱۳)
*    حضرت عثمان بن محمدؒ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔(اخراجہ البیہقی فی الشعب ۹۳۸۳ وھواصح۔ الجامع لاحکام القرآن القرطبی ۲۱؍۰۱۱)
* حضرت راشد بن سعدؒ سے مروی ہے کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ ان تمام روحوں کو قبض کرنے کی تفصیل ملک الموت کو بتا دیتے ہیں جو اس سال میں قبض کی جائیں گی۔ (اخرجہ الدنیوری فی المجالسۃ۔ روح المعانی ۳۱؍ ۴۷۱)
*حضرت علاء بن حارث رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور نماز پڑھنے لگے اور اتنے لمبے سجدے کئے کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ کی وفات ہوگئی ہے، میں نے جب یہ معاملہ دیکھا تو میں اٹھی اور آپکے پاؤں کے انگوٹھے کو حرکت دی، اس میں حرکت ہوئی، میں واپس لوٹ آئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے سے سر اٹھایا اور نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا اے عائشہ یا فرمایا اے حمیرا!کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ (اللہ کا) نبی تمہاری حق تلفی کرے گا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخدا ایسی بات نہیں ہے، درحقیقت مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کی وفات ہوگئی ہے کیونکہ آپ نے سجدے بہت لمبے کئے تھے، آپ نے فرمایا جانتی بھی ہو یہ کونسی رات ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول(ا) ہی زیادہ جانتے ہیں، فرمایا یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے، اللہ عزوجل اس رات اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں، بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں، طالبین رحم پر رحم فرماتے ہیں اور کینہ وروں کو ان کی حالت ہی پر چھوڑ دیتے ہیں۔(رواہ البیہقی فی شعب الایمان ۳؍ ۲۸۳)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات میں بڑے بڑے امور انجام پاتے ہیں یعنی اس سال جتنے پیدا ہونے والے ہیں ان کے نام لکھ دئیے جاتے ہیں، اور جنہوں نے مرنا ہے ان کے نام بھی لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں یعنی بارگاہ خداوندی میں پیش کئے جاتے ہیں اور مخلوق کو اس سال جو رزق ملنا ہوتا ہے وہ بھی اسی شب میں لکھ دیا جاتا ہے۔۔۔
علامہ محمد بن احمد انصاریؒ قرطبی تحریر فرماتے ہیں:
ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوح محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شب برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔(تفسیر قرطبی ۶۱؍۲۱۱)
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں:
اس میں کوئی نزاع نہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب میں مذکورہ امور انجام پاتے ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح)
علامہ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی حنفی بغدادی تحریر فرماتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ تمام امور کے فیصلے تو شب برأت میں ہوتے ہیں اور جن فرشتوں نے ان امور کو انجام دینا ہوتا ہے ان کے سپرد رمضان کی ستائیسویں شب (لیلۃ القدر) میں کئے جاتے ہیں۔(روح المعانی ۳۱؍۴۷۱)
قبرستان
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اپنے کپڑے اتارے، تھوڑی دیر گزرنے نہ پائی تھی کہ آپ نے ان کو پھر پہن لیا، مجھ کو یہ خیال آیا کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی اور کے پاس جارہے ہیں اس لئے مجھے بہت غیرت آئی، میں آپ کے پیچھے پیچھے نکل کھڑی ہوئی، تلاش کرتے ہوئے میں نے آپ کو جنت البقیع میں پایا، آپ مسلمان مردوں عورتوں اور شہداء کیلئے استغفار کررہے تھے میں نے دل میں کہا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان جائیں، آپ خدا کے کام میں مصروف ہیں اور میں دنیا کے کام میں، میں وہاں سے واپس اپنے حجرے میں چلی آئی(اس آنے جانے میں) میرا سانس پھول گیا، اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور دریافت فرمایا یہ سانس کیوں پھول رہا ہے؟ میں نے عرض کیا آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ میرے پاس تشریف لائے اور آپ نے جلدی سے دوبارہ کپڑے پہن لئے، مجھ کو یہ خیال کرکے سخت رشک ہوا کہ آپ ازواج مطہرات میں سے کسی اور کے پاس تشریف لے گئے ہیں، نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں نے آپ کو خود بقیع غرقد میں جا دیکھا کہ آپ کیا کررہے ہیں، آپ نے فرمایا عائشہ کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ خدا اور خدا کا رسول تمہارا حق ماریں گے؟ (اصل بات یہ ہے کہ ) جبرئیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ رات شعبان کی پندرہویں رات ہے اور خداوند عالم اس رات میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے جو کہ قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر اس میں خدا تعالیٰ مشرکین، کینہ اور، رشتے ناطے توڑنے والے، ازارٹخنوں سے نیچے رکھنے والے، ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے عادی لوگوں کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرماتے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ کیا تم مجھ کو اجازت دیتی ہو کہ آج رات قیام کروں میں نے کہا کہ بے شک آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ نے قیام کے بعد ایک طویل سجدہ کیا یہاں تک کہ مجھ کو خیال ہوا کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ میں نے چھونے کا ارادہ کیا اور آپ کے تلووں پر اپنا ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی میں نے آپ کو سجدہ میں یہ دعا مانگتے سنا۔
اعوذُ بعفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ واعوذ بِرِضَاکَ مِنْ سخَطِکَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ لا اُحْصِیْ ثَنَآءً عَلَےْکَ اَنْتَ کَمَا اُثْنَےْتَ عَلٰی نفسِکَ۔
صبح کو میں نے آپ سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ تم اس دعا کو یاد کرو گی؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور، آپ نے فرمایا سیکھ لو، مجھ کو یہ کلمات جبرئیل علیہ السلام نے سکھائے ہیں اور کہا ہے کہ سجدہ میں ان کو بار بار پڑھا کرو۔
حدثنا القاضي الحسين بن إسماعيل وأحمد بن محمد بن زياد القطان قالا نا عبد الكريم بن الهيثم نا حجاج بن إبراهيم المصري نا الفرج بن فضالة عن يحيى بن سعيد عن عمرة عن عائشة قالت : فقدت رسول الله صلى الله عليه و سلم ذات ليلة من فراشي فقلت قام إلى جاريته مارية فقمت أتجسس الجدر وليس لنا كمصابيحكم هذه فإذا هو ساجد فوضعت يدي على صدر قدميه وهو يقول في سجوده اللهم إني أعوذ بعفوك من عقابك وأعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك
الفرج بن فضالة ضعيف خالفه يزيد بن هارون ووهيب وغيرهما رووه عن يحيى بن سعيد عن محمد بن إبراهيم عن عائشة مرسلا
وهذا حديث غريب جدا، بل منكر نكارة شديدة،
       بہرحال اس روایت سے کم از کم یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ شب برأت میں قبرستان تشریف لے گئے تھے، لہٰذا اگر وقت ملے تو قبرستان چلے جانا چاہئے لیکن اس کو ضروری نہ سمجھا جائے۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ نے ۳۱؍ شعبان ۱۳۳۱ھ کو جامع مسجد تھانہ بھون میں اپنے بیان کے آخر میں فرمایا، اس دن میں روزہ ، اس رات میں جاگنا، اپنی حاجت طلب کرنا، مُردوں کیلئے دعا کرنا مستحب ہے۔۔۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ مُردوں کو اسی طریق پر نفع پہنچاؤ، جس طور جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے یعنی بعد عشاء کے قبرستان میں جا کر مردوں کیلئے دعا کرو، پڑھ کر بخشو، مگر فرداً فرداً جاؤ، جمع ہو کر مت جاؤ اس کو تہوار مت بناؤ۔
اور عجب لطف حق ہے کہ پندرہویں شب میں ہمیشہ چاندنی ہوتی ہے، (اکیلے) قبرستان جانے میں وحشت بھی نہ ہوگی۔(خطبات حکیم الامت ۷؍۷۲۴)
حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں ایک روایت سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے گئے تھے، اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برأت میں قبرستان جائیں، لیکن میرے والد ماجد
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہو اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھانا چاہئے، لہٰذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے۔ لیکن ہر شب برأت میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا اور اس کو ضروری سمجھنا اور اس کو شب برأت کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برأت کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برأت نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے لہٰذا اگر کبھی کوئی شخص اس نقطہ سے قبرستان چلا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے میں بھی آپ کی اتباع میں جارہا ہوں تو انشاء اللہ اجر وثواب ملے گا، لیکن اس کے ساتھ یہ کرو کہ کبھی نہ بھی جاؤ۔(اصلاحی خطبات ۴؍۵۶۳)
الفیہ نماز
شب برأت میں کوئی خاص نماز کسی خاص ہےئت میں کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، بعض لوگوں کے ہاں الفیہ نماز کے نام سے نوافل پڑھے جاتے ہیں، یعنی سو رکعتیں اس طرح پڑھتے ہیں کہ ہر رکعت میں دس دس بار سورۂ اخلاص یعنی قل ھو اللہ احد پڑھتے ہیں، یہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے نہ کسی صحابی اور تابعی کا کوئی مضبوط ارشاد منقول ہے۔
صلٰوۃ البرأۃ
بعض حضرات صلوٰۃ البرأۃ کے نام سے باجماعت نوافل ادا کرتے ہیں، یہ بھی بدعت ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانے میں اس نماز کا کوئی ثبوت نہیں، بلکہ ہجرت کے چار سو سال بعد یعنی ۸۴۴ھ میں بیت المقدس میں یہ نماز ایجاد ہوئی۔
اس کا واقعہ امام طرسوسی رحمہ اللہ نے یہ لکھا ہے کہ ایک شخص بیت المقدس میںآیا اور پندرہویں شب کو اس نے مسجد میں نماز پڑھنی شروع کردی، ایک شخص نے اس کے پیچھے نماز کی نیت باندھ لی پھر ایک اور شخص نے اس کے پیچھے نیت باندھ لی اسی طرح تیسرے شخص نے پھر چوتھے نے، یہاں تک کہ ابھی اس کی نماز مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک بڑی جماعت لوگوں کی اس کے پیچھے نماز میں بن گئی۔
آئندہ سال بھی وہ شخص آیا بہت سے لوگوں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی پھر دوسری مساجد اور رفتہ رفتہ تمام شہروں میں دھوم مچ گئی۔
علماء متاخرین نے اس کو بدعت قبیحہ قرار دیا ہے اور صاف بیان کیا ہے کہ اس میں کئی برائیاں ہیں، اور نفل نماز کو جماعت سے پڑھنے کیلئے مساجد میں جمع ہونا کراہت سے خالی نہیں ہے، اسی طرح چراغوں کو جلانا اور فانوسوں کا لٹکانا بدعت ہے۔(قرۃ الواعظین ترجمہ درۃ الناصحین ۲؍۲۱۲)
شب بیداری
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب آئے، تو رات کو نماز پڑھو، اور اگلے دن روزہ رکھو، کیونکہ غروب شمس سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک اللہ رب العزت قریب کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں، اور یوں پکارتے ہیں، کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اس کی بخشش کردوں، کیا کوئی مبتلائے مصیبت ہے جو اس مصیبت سے بچنے کی درخواست کرے، میں اس کو عافیت عطا کردوں، کیا کوئی فلاں قسم کا آدمی ہے، فلاں قسم کا آدمی ہے، ایک ایک ضرورت کا نام لے کر اللہ میاں پکارتے ہیں۔(ابن ماجہ ص۹۹، مشکوٰۃ المصابیح ص۵۱۱)
 اس کی تحقیق ما سبق میں گزر چکی۔    ۔
شب برأت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خو دبھی شب بیداری کی، دوسروں کو بھی شب بیداری کا حکم دیا(جیسا کہ ابھی گزرا فقوموالیلھا۔ مشکوٰۃ ص۵۱۱)اور نہ صرف حکم دیا بلکہ جاگنے کی فضیلت بھی بتلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
جس نے پانچ راتوں کو زندہ رکھا اس کیلئے جنت واجب ہوگئی۔
اور پانچ راتیں جن میں دعاء رد نہیں ہوتی۔
۱۔ آٹھویں ذی الحجہ کی رات
۲۔ نویں ذی الحجہ کی رات
۳۔ عید الاضحی کی رات
۴۔ عید الفطر کی رات
۵۔پندرہویں شعبان کی رات حديث " خمس ليال لا يرد فيهن الدعاء . . " ذكره في فيض القدير بلفظ " خمس ليال لا ترد فيهن الدعوة أول ليلة من رجب وليلة النصف من شعبان وليلة الجمعة وليلة الفطر وليلة النحر " وقال رواه ابن عساكر ، والديلمي في مسند الفردوس من حديث أبي أمامة ، والبيهقي ، من حديث عمر ، قال ابن حجر : وطرقه كلها معلولة ( فيض القدير 3 / 455 )

شب برأت اور ہمارے اسلاف
اسی لئے اہلسنّت و الجماعت ہمیشہ سے اس شب کی فضیلت و بزرگی کا اعتقاد رکھتے چلے آئے ہیں۔
* چنانچہ علامہ ابن الحاج مالکی رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب المدخل (جس کا تعارف علامہ ابن حجر عسقلانی نے ان الفاظ میں کروایا ہے ’’آپ نے ایک کتاب لکھی جس کا نام المدخل رکھا یہ کتاب بڑی فائدہ مند ہے اس میں آپ نے ان برائیوں اور بدعتوں کو کھول کھول کر بیان کیا ہے جن کا لوگ ارتکاب کرتے ہیں، اور جن میں لوگ مساہلت برتتے ہیں، ان میں اکثر منکرات ہیں اور بعض میں منکر ہونے کا احتمال ہے) میں شب برأت سے متعلق اسلاف امت کا نظریہ یوں لکھا ہے، اور کوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی عظمت والی ہے اور (ہمارے) اسلاف رضی اللہ عنہم اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس کے آنے سے پہلے ہی اس کیلئے تیاری کرتے تھے، جب یہ رات آتی تھی تو وہ اس کی ملاقات اور اس کی حرمت و عظمت بجا لانے کیلئے مستعد ہوتے تھے۔(المدخل ۱؍۲۹۲)
فقہاء کرام نے بھی لکھا ہے کہ شب برأت میں قیام کرنا یعنی رات کو جاگ کر اللہ کی عبادت کرنا مستحب ہے۔
* چنانچہ علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں ’’اہل شام میں سے جلیل القدر تابعین مثلاً حضرت خالد بن معدانؒ ، حضرت مکحولؒ ، حضرت لقمانؒ بن عامر وغیرہ شعبان کی پندرہویں شب کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس شب میں خوب مبالغہ کے ساتھ عبادت کرتے تھے انہی حضرات سے لوگوں نے شب برأت کی فضیلت و بزرگی کو اخذ کیا ہے۔‘‘
(لطائف المعارف،ص۴۴۱)
* علامہ ابن نجیمؒ مصری حنفی رقمطراز ہیں ’’اور
مستحبات میں سے ہے رمضان کی آخری دس راتوں میں، عیدین کی راتوں میں ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں، او رشعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرنا جیسا کہ احادیث میں آیا ہے، یہ احادیث ’’الترغیب و الترہیب‘‘ میں تفصیل سے مذکور ہیں۔(البحر الرائق ۲؍۲۵)
* علامہ علاؤ الدینؒ الحصکفی حنفی تحریر فرماتے ہیں:
اور مستحبات میں سے ہے، سفر میں جاتے وقت اور واپس آکے دو رکعتیں پڑھنا، اور عیدین کی رات میں، شعبان کی پندرہویں شب میں، رمضان کے آخری عشرہ میں اور ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں شب بیداری کرنا۔(الدر المختار مع شرح ردالمحتار ۲؍۴۲،۵۲)
* علامہ حسن بن عمار بن علی الشر نلالی حنفی تحریر فرماتے ہیں:
اور مستحب ہے شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرنا۔(نور الایضاح مع شرح و حاشیہ طحطاوی ص۰۰۴)
* حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
شب برأت میں بیدار رہ کر مختلف قسم کی نفلی عبادات کے اندر مشغول رہنے کے مستحب ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے، اس کی دلیل ابن ماجہ اور بیہقی کی شعب الایمان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی حدیث ہے اور اس سلسلہ میں دوسری احادیث بھی ہیں، جن کو بیہقی وغیرہ نے روایت کیا ہے، جیسا کہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے الایضاح و البیان میں تفصیل سے بیان کیا ہے یہ تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات کو زیادہ سے زیادہ عبادات اور دعائیں فرماتے تھے، اور آپ نے زیارت قبور بھی کی تھی اور مُردوں کیلئے دعا بھی کی تھی، اور ان تمام قولی و فعلی احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس شب میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنا مستحب ہے، ہر بندے کو اختیار ہے چاہے نماز پڑھے یا کوئی اور عبادت کرے، اگر وہ نماز پڑھنے کو اختیار کرے تو رکعتوں کی تعداد اور کیفیت میں بھی اس کو اختیار ہے، لیکن کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے شارع علیہ السلام نے صراحتاً یا اشارتاً منع کیا ہو۔ (الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ص۳۷،۴۷، فضیلت کی راتیں ص۳۶)
* حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں اس شب میں بیدار رہ کر عبادت کرنا افضل ہے خواہ خلوت میں یا جلوت میں، لیکن اجتماع کا اہتمام نہ کیا جاوے۔(زوال السنۃ عن اعمال السنتہ (قدیم نسخہ) ص۷۱)
* مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ان احادیث سے جس طرح اس مبارک رات کے بیش بہا فضائل و برکات معلوم ہوئے اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کیلئے اس رات میں اعمال ذیل مسنون ہیں۔
۱۔ رات کو جاگ کر نما زپڑھنا اور ذکر و تلاوت میں مشغول رہنا۔
۲۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور عاقبت اور اپنے مقاصدِ دارین کی دعا مانگنا۔
(فضائل و احکام شب برأت ص۸)
* حضرت مولانا مفتی سید عبدالکریم گمتھلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ،
اس ماہ کے متعلق شریعت مقدسہ کے چند احکام ثابت ہوئے۔
۱۔ اس (ماہ شعبان) کے چاند کا بہت اہتمام کرنا چاہئے۔
۲۔ پندرہویں شب کو عبادت کرنا اور پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے۔
(بارہ مہینوں کے فضائل و احکام ص۰۳)
* حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ شب برأت سے متعلق اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں:
اس رات میں کرنے کے دو کام ہیں، ایک تو جہاں تک ممکن ہو سکے عبادت کرو اور قرآن کریم کی تلاوت کرو، نماز پڑھنا سب سے افضل ہے، لیکن اگر بیٹھ کر تسبیحات پڑھنا چاہو تو یہ بھی جائز ہے۔غرضیکہ اللہ کی یاد میں جتنا وقت بھی گزار سکتے ہو گزارو، باقی سونے کا تقاضا ہو تو سوجاؤ، فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ضرور پڑھ لو، تو ایک یہ کہ جہاں ممکن ہو سکے عبادت میں وقت گزارا جائے، اور دوسرے یہ کہ رات مانگنے کی ہے، کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگا جائے، مانگا کیا جائے؟ اس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے، ایک تو اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو، دوسرے اللہ تعالیٰ سے رزق مانگو، اور تیسرے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، لیجئے خدا تعالیٰ نے کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں، جتنا چاہے کھولو اور لو۔(اصلاحی مواعظ ۵۶۸۲)


شعبان میں نفل روزے
          حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے (کبھی) مسلسل رکھنے شروع کرتے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب ناغہ نہیں کریں گے اور (کبھی) بغیر روزے کے مسلسل دن گذارتے؛ یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگتا ہے کہ اب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بلا روزہ ہی رہیں گے۔ نیز فرماتی ہیں کہ: میں نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا پورا روزہ رکھتے نہیں دیکھا، اسی طرح کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (مشکوٰة:۱۷۸) بعض روایتوں میں ہے کہ شعبان کے مہینہ میں بہت کم ناغہ کرتے تھے، تقریباً پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ (الترغیب والترہیب:۲/۱۱۷)
          احادیث کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفلی روزوں کے سلسلے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی لگا بندھا دستور ومعمول نہیں تھا، کبھی مسلسل روزے رکھتے، کبھی مسلسل ناغہ کرتے؛ تاکہ امت کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں زحمت، مشقت اور تنگی نہ ہو، وسعت وسہولت کا راستہ کھلا رہے، ہر ایک اپنی ہمت، صحت اور نجی حالات کو دیکھ کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرسکے، اسی لیے کبھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ایامِ بیض (۱۳،۱۴،۱۵ تاریخوں) کے روزے رکھتے، کبھی مہینے کے شروع میں ہی تین روزے رکھتے، کسی مہینہ میں ہفتہ، اتوار اور پیر کے روزے رکھتے تو دوسرے مہینے میں منگل، بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے، کبھی جمعہ کے روزے کا اہتمام کرتے، اسی طرح عاشورہ اور شوال کے چھ روزے رکھنا بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
          شعبان کے مہینے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت سے روزے رکھنے کی علماء نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں:
          ۱- چوں کہ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کے دربار میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے؛ اس لیے سرکار  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہوتو میں روزے کی حالت میں رہوں، یہ بات حضرت اسامہ بن زید کی روایت میں موجود ہے۔ (نیل الاوطار:۴/۲۴۶)
          ۲- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ: پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے؛ اس لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دیے جائیں تو اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوں۔ (معارف الحدیث: ۴/۱۵۵)
          ۳- رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار وبرکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے، جس طرح فرض نمازوں سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، اسی طرح فرض روزے سے پہلے نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور جس طرح فرض کے بعد سنتیں اور نفلیں پڑھتے تھے؛ اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھ روزے رکھتے اوراس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔
شعبان کے روزے میں آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم اورامت کے عمل میں فرق
          آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جیسا کہ معلوم ہوا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے تقریباً پورے مہینے روزہ رکھتے تھے، دوسرے مہینوں کے مقابلے میں اس مہینہ میں اہتمام زیادہ تھا، اسی طرح چوں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم امت پر بڑے شفیق، رؤف اور رحیم تھے؛ اس لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بتایا کہ تم میری ہمسری نہیں کرسکتے، مجھے تم سے زیادہ طاقت دی گئی ہے، اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خصوصیت حاصل ہے (یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ) کہ مجھے میرے رب کھلاتے پلاتے رہتے ہیں، مجھے روحانی غذا ملتی رہتی ہے؛ اس لیے تم لوگ شعبان میں روزہ رکھ سکتے ہو؛ لیکن نصف شعبان آتے ہی روزہ رہنا بند کردو پھر جب رمضان آئے تو نئی نَشاط کے ساتھ روزہ شروع کرو! (ابن ماجہ: ۱/۳۰۳، تحقیق مصطفی اعظمی زیدمجدہ) ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے: اذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلاَ تَصُوْمُوْا(۱/۵۵) جب شعبان کا مہینہ آدھے پر آجائے تو روزہ نہ رہو! (نیز دیکھئے: بلوغ المرام:۱۳۹)
          خلاصہ یہ کہ پورے مہینہ یا اکثر دنوں میں روزہ رہنا سرکارِ دوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے، ہمارے لیے نصف شعبان تک روزہ رہنا سنت ہے؛ لیکن اس کے بعد روزہ رہنا خلافِ سنت ہے، محدثین نے اس ممانعت کو تنزیہی پر محمول کیا ہے، ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ سرکارِ  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم امت پر شفقت کے طور پر ہے تاکہ رمضان المبارک کے فرض روزے رکھنے میں ضعف محسوس نہ ہو؛ بلکہ نَشاط، چستی اور حشاش بشاش ہونے کی حالت میں رمضان کا روزہ شروع کیا جاسکے۔ (مرقات)
پندرہویں شعبان کا روزہ
          پندرہویں شعبان کے روزے کے سلسلے میں ایک حدیث شریف سنن ابن ماجہ میں ہے، یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کو پوری سند کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے:
          حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْخَلَّالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أنْبَأنَا ابْنُ أبِی سَبْرَةَ، عَنْ ابْرَاہِیْمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُعَاوِیَةَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أبِیْہِ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أبِیْ طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ”اذَا کَانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَہَا وَصُوْمُوْا یَوْمَہَا، فَانَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیْہَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ الَی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ: ألاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأغْفِرَ لَہُ! ألاَ مُسْتَرْزِقٌ فَأرْزُقَہُ! ألاَ مُبْتَلیً فَأُعَافِیَہُ! ألاَ کَذَا! ألاَ کذا! حَتّٰی یَطْلَعَ الْفَجْرُ“ (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۱۳۸۴، ۱/۲۵۳، باب ما جاء فی لیلةِ النصف من شعبان․ تحقیق: مولانا محمد مصطفی الأعظمی زیدَ مجدُہ)
          ترجمہ: (حافظ ابوعبداللہ محمد بن یزید قزوینی فرماتے ہیں کہ) ہم سے حسن بن علی خلاّل نے بیان کیا کہ ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا کہ ہمیں ابن ابی سبرہ نے خبر دی، وہ اس حدیث کو ابراہیم بن محمد سے بیان کرتے ہیں اور وہ معاویہ بن عبداللہ بن جعفر سے اور وہ اپنے والد سے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب نصف شعبان کی رات ہوجائے تو اس کی رات کو قیام کرو (نماز پڑھو) اور اس کے دن کو روزہ رکھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس رات غروبِ شمس کے وقت آسمانِ دنیا پر نزولِ اجلال فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ: ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ میں اس کو معاف کروں؛ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کو رزق دے دوں؛ ہے کوئی (مصیبت میں) مبتلا کہ میں اسے اس سے بچادوں؛ ہے کوئی ایسا․․․․․ ہے کوئی ایسا․․․․․ یہاں تک کہ صبحِ صادق طلوع ہوجاتی ہے۔
          اس حدیث شریف میں پندرہویں شعبان کے روزے کا حکم ہے؛ مگر اس حکم کو وجوب یا سنت پر محمول نہیں کیا جاسکتا؛ اس لیے کہ یہ حدیث محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، موضوع نہیں ہے؛ اگرچہ اس میں ایک راوی ”ابن ابی سبرہ“ ہیں، ان کے بارے میں امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے واضعِ حدیث ہونے کی بات کہی ہے، سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں حضرت مولانا محمدمصطفی الاعظمی زِیدمجدہ لکھتے ہیں: أسنادُہ ضعیفٌ، فیہ ابنُ أبی سَبْرة، قالَ فیہ أحْمدُ بْنُ حنبلٍ وابنُ مَعِینٍ: یَضَعُ الحَدیْثَ․ (ج:۱/ص:۲۵۳)
          ترجمہ: اس کی سند ضعیف ہے، اس میں ابن ابی سبرہ نامی راوی ہیں، ان کے سلسلے میں امام احمد بن حنبل اور ابن معین فرماتے ہیں کہ وہ حدیث وضع کرتا تھا۔
موضوع نہ ہونے کی وجوہات:
          پہلی وجہ: محض ایک راوی کے اوپر وضع کے اتہام سے حدیث کو موضوع نہیں کہا جاسکتا، اگر یہ حدیث موضوع ہوتی تو حافظ منذری اس کو اپنی کتاب ”الترغیب والترہیب“ میں ذکر نہ کرتے؛ اس لیے کہ ان کے سلسلے میں علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ کوئی حدیث منذری صاحبِ ترغیب وترہیب کی تصانیف میں موجود ہے تو اس کو اطمینان سے بیان کرسکتے ہو (یعنی وہ موضوع نہیں ہوسکتی) (الرحمة المرسَلة فی شأن حدیث البسملة: ص:۱۵)
          دوسری وجہ: اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ: جن حضرات نے سنن ابن ماجہ کی موضوع احادیث کی نشان دہی کی ہے ان میں اس حدیث کا ذکر نہیں ملتا، ”مَا تَمَسُّ الَیْہِ الحَاجَةُ“ میں وہ ساری احادیث مذکور ہیں۔ (محدثِ کبیر مولانا حبیب الرحمن الاعظمی بہ حوالہ ”شب براء ت کی شرعی حیثیت“ ص:۶)
          تیسری وجہ: ابن ابی سبرہ پر جرح شدید ہے، ان کے ضعیف ہونے میں شبہ نہیں؛ تاہم بعض اہلِ علم ایسے بھی ہیں جنھوں نے ان کے بارے میں بلندکلمات کہے ہیں؛ جیساکہ تاریخ خطیب بغدادی میں ان کے تفصیلی ترجمہ کے ضمن میں موجود ہیں، نیز شیخ محمد طاہرپٹنی نے ان کو قاضی العراق لکھا ہے، جہاں بعض محدثین نے ان کی طرف وضع کی نسبت کی ہے، وہیں بعض نے محض ضعیف کہا ہے۔
          لہٰذا قطعی طور پر اس حدیث کو موضوع نہیں کہا جاسکتا، ہاں! ضعیف ضرور کہا جائے گا جس کی صراحت علامہ شوکانی نے اپنی کتاب فوائد المجموعة فی بیان الأحادیث الموضوعة (ص:۲۰) میں کی ہے، اور ضعیف روایتیں فضائل کے باب میں قابلِ قبول ہوتی ہیں۔
          خلاصہ یہ کہ پندرہویں شعبان کے روزے کو نہ توواجب وسنت کہا جاسکتا ہے، نہ ہی بدعت کہہ کر بالکل رد کیا جاسکتا ہے؛ بلکہ اس کو مستحب کہا جائے گا، بعض فقہاء نے مرغوبات (پسندیدہ) روزوں میں شامل کیاہے؛ جیساکہ فتاویٰ عالم گیری (۱/۲۰۳) میں ہے اور بعض نے ”مستحب“ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے؛ جیساکہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (۶/۵۰۰) اور تعلیم الاسلام مفتی کفایت اللہ صاحب (۴/۶۶) میں ہے؛ اس لیے انفرادی طور پر اگر کوئی شخص پندرہویں شعبان کا روزہ رکھے تو اس سے منع نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ وہ اس کی برکات کا پانے والا کہلائے گا؛ اس لیے کہ اس کی فضیلت ایک حدیث میں مذکور ہے، جس کی سند ضعیف ہے، اور فضائل میں ضعیف حدیث قابلِ قبول ہوتی ہے۔
          یہی وجہ ہے کہ درج ذیل کتابوں میں اس روزہ کا ذکر موجود ہے: أشِعَّةُ اللمعات (ص:۵۸۸) مطبوعہ نول کشور لکھنوٴ، فتاویٰ ہندیہ (۱/۲۰۳)، ماثبت بالسُّنة فی أیَّامِ السَّنة (ص:۸۰)، تحفة الاحوذی (۲/۵۳)، الموعظةُ الحَسَنة للنواب صدیق حسن خان (ص:۱۶۲) مطبوعہ مصر ۱۳۰۰ھ، نصاب اہل خدماتِ شرعیہ (ص:۳۸۲) منظور محکمہٴ صدارتِ عالیہ، مطبوعہ: سلطان بک ڈپو، کالی کمان حیدرآباد، دکن، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (۶/۵۰۰)، بہشتی زیور تیسرا حصہ (ص:۱۰) تعلیم الاسلام حصہٴ چہارم (ص:۶۶)
          محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے سنن ابن ماجہ کی مذکورہ بالا حدیث کے موضوع نہ ہونے پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے، ملاحظہ ہو:
”پندرہویں شعبان کے روزے کے باب میں جو حدیث ابن ماجہ میں آئی ہے وہ موضوع نہیں ہے، کسی ماہر حدیث عالم نے اس کو موضوع نہیں کہا ہے، تحفة الاحوذی کی عبارت سے اس حدیث کے موضوع ہونے پر استدلال کرنا جہالت ہے، اس حدیث کے راویوں میں ابوبکر بن سبرہ ضرور ہے، اس کی نسبت بے شک یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حدیثیں بناتا تھا؛ لیکن اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ زیربحث حدیث اس کی بنائی ہوئی اور موضوع ہے، محض اس بنیاد پر کہ سند میں کوئی ایسا راوی موجود ہے جو حدیثیں بناتا تھا، کسی حدیث کو موضوع کہہ دینا جائز نہیں ہے، اس سے تو بس اتنا لازم آئے گا کہ حدیث سنداً ضعیف ہے، یہی وجہ ہے کہ جن حضرات نے سنن ابن ماجہ کی موضوع احادیث کی نشاندہی کی ہے ان میں اس حدیث کا ذکر نہیں ملتا، مَا تَمُسُّ الیہ الحاجة میں وہ ساری حدیثیں مذکور ہیں، جس کا جی چاہے دیکھ لے۔
اصولِ حدیث وغیرہ کی مختلف کتابوں میں جگہ جگہ تصریح مل سکتی ہے کہ کسی حدیث کی سند میں کوئی کذّاب یا وضّاع راوی پایا جائے تو محض اتنے سے وہ حدیث موضوع نہیں ہوجائے گی، جب تک کہ دوسری کوئی دلیل اس کے موضوع ہونے پر دلالت نہ کرے، مثال کے طور پر فتح المغیث:۱/۲۵۱ کوملاحظہ کیا جائے، امام سخاوی لکھتے ہیں:
”ہٰذَا مَعَ أنَّ مُجَرَّدَ تَفَرُّدِ الْکَذَّابِ بَلِ الْوَضَّاعِ وَلَوْ کَانَ بَعْدَ الاِسْتِقْصَاءِ وَالتَّفْتِیْشِ مِنْ حَافِظٍ مُتَبَحِّرٍ تَامِ الاِسْتِقْرَاءِ غَیْرُ مُسْتَلْزِمٍ لِذٰلِکَ بَلْ لاَ بُدَّ مَعَہُ مِنْ اِنْضِمَامِ شَیْءٍ مِمَّا سَیَأْتِیْ“
ترجمہ: ”محض کسی جھوٹے؛ بلکہ وضّاعِ حدیث کا کسی حدیث میں متفرد ہونا اگرچہ اس کا ثبوت کسی متبحر اور دیدہ ور حافظِ حدیث کی تحقیق سے ہوا ہو،اس کو (یعنی حدیث کے موضوع ہونے کو) مستلزم نہیں ہے؛ بلکہ اس کے ساتھ کسی اور دلیل کا انضمام بھی ضروری ہے، جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔“
          اسی طرح راوی کو منکَرالحدیث اور حدیث کو منکَر بھی کہا گیا ہوتب بھی اس کوموضوع کہنا جائز نہیں، حدیث لا تقولوا سورةَ البقرةِ الخ کو امام احمد نے منکَراور اس کے راوی عبیس کو منکَرالحدیث کہا ہے، اس بنا پر ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں داخل کردیا تو حافظ ابن حجر نے اس پر سخت اعتراض کیا۔
          فرماتے ہیں: أفرط ابن جوزی فی ایراد ہذا الحدیث فی الموضوعات، ولم یذکر مستندہ الا قولَ أحمد وتضعیف عبیس وہذا لا یقتضی الوضع (اللآلی المصنوعة:۱/۲۳۹)۔ (ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوعات کی قبیل سے شمار کرکے تشدد سے کام لیا ہے، اور دلیل میں سوائے حضرت امام احمد کے قول اور عبیس کی تضعیف کے اور کچھ ذکر نہیں کیا؛ لیکن یہ بات اس کے موضوع ہونے کو مقتضی نہیں ہے)۔
          سطورِ بالا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص نے یہ بات کہی ہے کہ روایت فضیلتِ صوم شعبان میں ابوبکر بن عبداللہ راوی واضع الحدیث تھا؛ اس لیے یہ روایت موضوع ٹھہری، بالکل غلط ہے۔ ایسی جہالت کی بات کوئی عالم نہیں کہہ سکتا، مولانا عبدالرحمن مرحوم کیسے ایسی بات کہہ سکتے ہیں، مولانا تو اس حدیث کو پندرہویں رات کی فضیلت کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور اس شخص کے اوپر حجت قائم کرتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت ثابت نہیں۔
تحفة الاحوذی کی عبارت بعینہ نقل کی جاتی ہے:
”مِنْہَا حَدِیْثُ عَلِيٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اذَا کَانَتْ لِیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَہَا وَصُوْمُوْا یَوْمَہَا (الی) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَةَ، وفِیْ سَنَدِہ أبُوْبَکْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أبِیْ سَبْرَةَ الْقَرْشِیْ الْعَامِرِیْ الْمَدَنِیْ، قِیْلَ: اسْمُہ عَبْدُ اللّٰہِ، وَقِیْلَ: محمّدٌ، وَقَدْ یُنْسَبُ الیٰ جَدِّہ، رَمَوہ بِالْوَضْعِ کذا فِیْ التَّقْرِیْبِ، وَقَالَ الذَّہَبِیْ فِی الْمِیْزَانِ ضَعَّفَہُ الْبُخَارِیُّ وَغَیْرُہ، وَرَویٰ عَبْدُ اللّٰہِ وَصَالِحُ ابْنَا أحْمَدَ عَنْ أبِیْہِمَا قَالَ: کَانَ یَضَعُ الْحَدِیْثَ، وَقَالَ النَّسَائِیْ: مَتْرُوْکٌ․ انتہیٰ فَہٰذِہ الأحادیثُ بِمَجْمُوْعِہَا حُجَّةٌ عَلیٰ مَنْ زَعَمَ أنَّہ لَمْ یَثْبُتْ فِیْ فَضِیْلَةِ لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ شَیْیءٌ․ (تحفة الاحوذی:۲/۵۳)
ترجمہ: انھیں میں سے حضرت علی کی حدیث ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شعبان کی ۱۵/تاریخ آئے تو رات میں عبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو (الیٰ) اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ابوبکر بن عبداللہ بن ابی سبرة القرشی العامری المدنی ہے، ان کا نام لوگوں نے عبداللہ بتایا ہے، بعض لوگوں نے محمد بتایا ہے، اس کی نسبت عموماً ان کے دادا کی جانب ہوتی ہے، لوگوں نے اس کو وضع حدیث کا مرتکب ٹھہرایا ہے، ایسے ہی تقریب میں ہے، امام ذہبی نے میزان میں فرمایا ہے کہ امام بخاری وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور عبداللہ وصالح بن احمد بن حنبل نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ حدیث گھڑتا تھا اور امام نسائی نے فرمایا کہ وہ متروک ہے، بس یہ تمام حدیثیں مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت ہیں، جس نے گمان کیا ہے پندرہویں شعبان کی رات کے سلسلہ میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے)
          دیکھئے مولانا مبارک پوری ابن ماجہ کی حدیث نقل کرکے اس کے راوی پر جو جرح ہے اس کو بھی نقل کرتے ہیں، اس کے باوجود اس حدیث کو دوسری ضعیف حدیثوں کے ساتھ ملاکر حجت بھی قرار دیتے ہیں، کیا موضوع حدیث کو بھی دوسری حدیث کے ساتھ ملاکر حجت بنایا جاسکتا ہے؟ یہ بات کوئی عالم نہیں کہہ سکتا۔
مولانا عبدالرحمن مبارک پوری نے جس طرح اس حدیث کو موضوع نہیں کہا ہے؛ بلکہ صرف ضعیف قرار دیا ہے، اسی طرح منذری نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، اور چوں کہ اس کو انھوں نے اپنی کتاب ترغیب وترہیب میں ذکر کیا ہے؛اس لیے وہ حسب تصریح سیوطی موضوع نہیں ہے، سیوطی فرماتے ہیں:
اذَا عَلِمْتُمْ بِالْحَدِیْثِ أنَّہ فِیْ تَصَانِیْفِ الْمُنْذِرِیْ صَاحبِ التَّرْغِیْبِ وَالتَّرْہِیْبِ فَأرْوُوْہُ مُطْمَئِنِّیْنَ․ (الرحمة المرسلة فی شان حدیث البسملة:۱۵)
ترجمہ: جب تمہارے علم میں یہ بات آجائے کہ کوئی حدیث منذری صاحب ترغیب وترہیب کی تصنیفات میں موجود ہے تو اس کو اطمینان سے بیان کرسکتے ہو؛ یعنی یہ کہ وہ موضوع نہیں ہے۔
اب تک ہم نے یہ بیان کیاہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں ہے اور اس کو موضوع قرار دینا جہالت ہے، ہاں وہ ضعیف ضرور ہے؛ مگر اس کا ضعف اس پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہے۔
حافظ ابن عبدالبر نے کتاب العلم میں یہ حدیث روایت کی ہے:
مَنْ بَلَغَہ عَنِ اللّٰہِ فَضْلٌ فَأخَذَ بِذٰلِکَ الْفَضْلَ الَّذِيْ بَلَغَہ أَعْطَاہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ مَا بَلَغَہ وَانْ کَانَ الذِي حَدَّثَہ کَاذِباً․
ترجمہ: جس کسی کو کسی کام پر کسی ثواب کی اطلاع ملے اور وہ اس پر کاربند ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ ثواب دے دے گا، جس کی اس کو اطلاع پہونچی ہے، اگرچہ جس نے بیان کیا ہے وہ جھوٹا ہو۔
          حافظ ابن عبدالبر اس کو روایت کرکے فرماتے ہیں کہ:
اس حدیث کی اسناد ضعیف ہے؛ اس لیے کہ ابومعمر عبادبن عبداللہ اس کا تنہا بیان کرنے والا ہے اور وہ متروک راوی ہے، مگر اہل علم اپنی جماعت کے ساتھ فضائل (ثواب کے کاموں) کے باب میں بہت ڈھیل دیتے ہیں اور ہر طرح کے راویوں سے روایت کرلیتے ہیں، وہ تو بس احکام (حلال وحرام) کی حدیثوں میں سختی سے کام لیتے ہیں۔
          خطیب بغدادی نے کتاب الکفایہ میں امام احمد وغیرہ ائمہ حدیث کا قول نقل کیا ہے: اذَا رَوَیْنَا فِی الْحَلاَلِ وَالْحَرَامِ شَدَّدْنا واذا رَوَیْنَا فِی الْفَضَائِلِ تَسَاہَلْنَا․ (ترجمہ: جب ہم حلال وحرام کے باب میں حدیث نقل کرتے ہیں تو پوری احتیاط سے کام لیتے ہیں اور جب فضائل کے باب میں روایت کرتے ہیں تو سہولت برتتے ہیں)
اور یہی بات امام نووی اور حافظ عراقی وغیرہ نے وضاحت کے ساتھ لکھی ہے، امام نووی نے لکھا ہے: ”یَجُوْزُ عِنْدَ أہْلِ الْحَدِیْثِ التَّسَاہُلُ فِی الْأسَانِیْدِ الضّعِیْفَةِ وَرِوَایةِ مَا سِویٰ الْمَوْضُوْعِ مِنَ الضَّعِیْفِ وَالْعَمَلُ بِہ مِنْ غَیْرِ بَیَانِ ضُعْفِہ فِیْ غَیْرِ صِفَاتِ اللّٰہِ وَالأحْکَامِ․ (تدریب الراوی:۱۹۶)
ترجمہ: اہل حدیث کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل برتنا اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا ان کا ضعف بیان کیے بغیر جائز ہے؛ مگر اللہ کی صفات اوراحکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے“۔
                                                                                      دستخط:
                                                                                      حبیب الرحمن الاعظمی
                                                                                                مہر:
                                                                             المعہد العالی للدراسات العُلیا
                                                                             پٹھان ٹولہ، مئوناتھ بھنجن،اعظم گڑھ
نوٹ: نیز دیکھئے: شبِ براء ت کی شرعی حیثیت(۶ تا ۱۰)
فتویٰ حضرت مفتی محمودحسن صاحب گنگوہی
مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تاریخ: ۳۰/ستمبر ۱۹۸۰/ بروز سہ شنبہ                                           (استفتاء نمبر:۱۰۱۱/ب)
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
          مندرجہ ذیل مسئلہ میں علمائے تحقیق کی کیا رائے ہے؟
          شعبان کی ۱۵/تاریخ یعنی (شب براء ت) کو روزہ رکھنا ہم مستحب سمجھتے ہیں اورآج تک امت کا ایک بڑا طبقہ اس پر عمل کرتا چلا آرہا ہے؛ مگر ایک غیرمقلد عالم اس روزہ کو بدعت اور معصیت قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ شعبان کی ۱۳،۱۴/تاریخوں کے ساتھ ۱۵/تاریخ کو اگر ملاکر تین روزے ایام بیض کے بنالیے جائیں تو درست ہے ورنہ صرف ۱۵/تاریخ کا ایک روزہ ممنوع اور بدعت ہے۔ مشکوٰة شریف:ص:۱۱۵ (اصح المطابع) پر حضرت علی سے جو ان الفاظ کے ساتھ روایت آئی ہے: ”اذا کانَتْ لیلةُ النصفِ مِنْ شعبانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَہَا وَصُوْمُوْا یَوْمَہَا الخ“ اور صاحب مشکوٰة نے اس روایت کو ابن ماجہ سے لیا ہے، اس روایت کو غیرمقلد عالم موضوع بتاتے ہیں اور دلیل میں ترمذی کے شارح مولانا عبدالرحمن مبارک پوری (یہ خود بھی غیرمقلد تھے) کی تصنیف ”تحفة الاحوذی“ کی (۲/۵۳) پر آئی ہوئی عبارت پیش کرتے ہیں: ”وَفِیْ سَنَدِہ أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أبِيْ سَبْرَةَ الْقَرَشِيِّ الْعَامِرِیِّ الْمَدَنِيِّ قِیْلَ اسْمُہ عَبْدُاللّٰہِ وَقِیْلَ مُحَمَّدٌ وَقَدْ یُنْسَبُ الیٰ جَدِّہ رَمَوْہُ بالوَضَعِ “ اور فرماتے ہیں کہ حضرت علی والی روایت (فی فضیلة صوم شعبان) میں ابوبکر بن عبداللہ راوی واضع الحدیث تھا؛ اس لیے یہ روایت موضوع ٹھہری، پس شب براء ت کا روزہ ثابت بالحدیث نہیں ہے؛ اس لیے یہ روزہ بدعت ہے، اب دریافت طلب امور یہ ہیں کہ: (۱) شب براء ت کا روزہ کیا بدعت ہے؟ (۲) روایت مذکورہ موضوع ہے یا ضعیف؟ (۳) ضعیف اور موضوع روایتوں کا اعمال میں کیا حکم ہے؟ (۴) ابوبکر بن عبداللہ راوی کیا متفق علیہ واضع الحدیث تھے؟ (۵) تحفة الاحوذی کی تحقیق کیا صحیح ہے؟ بینوا وتوجروا، والسلام                                                               المستفتی:
                                                                              عبدالرحیم صدیقی، فاضلِ دیوبند
                                                                             (موجودہ استاذِ تفسیر دارالعلوم دیوبند)
باسمہ سبحانہ تعالٰی
محترمی․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ زِیْدَ احترَامُہ
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
          الجواب: حامدًا ومصلیاً: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث مرفوع صاحب مشکوٰة نے بحوالہ ابن ماجہ نقل کی ہے، حافظ منذری نے بھی الترغیب والترہیب میں بصیغہٴ تمریض اس کو ذکر کیا ہے۔ درمنثور میں بیہقی کی شُعَبُ الایمان کا بھی حوالہ موجود ہے، ابوبکر ابن عبداللہ بن محمد بن ابی سبرہ بالاتفاق ضعیف ہیں؛ اگرچہ اہلِ رجال نے ان کے حق میں بلندکلمات بھی لکھے ہیں، جیساکہ تاریخ خطیب بغدادی میں ان کے تفصیلی ترجمہ کے ضمن میں موجود ہیں اور شیخ محمد طاہر پٹنی نے ان کو قاضی العراق لکھاہے؛ لیکن تعدیل وتوثیق کے اصطلاحی الفاظ ان کے بارے میں نہیں ملتے، بعض نے تضعیف کی ہے، بعض نے نسبت الی الوضع بھی کی ہے۔ ابن ماجہ کی جن روایات کو موضوع قرار دیاگیا ہے، اس فہرست میں اس حدیث کو شمار نہیں کیاگیا، حدیث شریف میں ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کا ثبوت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو درمنثور، تفسیر سورئہ دخان۔ پس اس روزہ کو فرض یا واجب یا سنتِ موٴکدہ قرار نہیں دیا جاسکتا، نہ اس کو بدعت کہا جاسکتا ہے۔ روایاتِ موضوعہ کے سلسلہ میں جو کتب احقر کے پاس ہیں، ان میں یہ روایت مذکورنہیں؛ پس اس کو حتمی طور پر موضوع کہنا دشوار ہے، ضعیف روایات باب الفضائل میں قابلِ قبول ہیں؛ جیساکہ کفایہ، شرح نخبہ، تہذیب وغیرہ میں مذکور ہے۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
                                                                             حررہ:
                                                          العبد محمود غفرلہ دارالعلوم دیوبند ۲۹/۱۱/۱۴۰۰ھ
                                                                             مہر:
                                                                   دارالافتاء دارالعلوم دیوبند

    اقول:اس روایت میں شدید درجہ کا ضعف پایا جاتا ہے۔
    بہرحال شعبان اور شب برات کے متعلق ہر قسم کی یعنی صحیح،ضعیف اور موضوع روایات ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں،منجملہ ان کے تقریبا ساری روایات جو اس باب میں مشہور ہے اس کی تخریج کر دی ہے،اور کچھ مشہور موضوع روایات کو حذف کر دیا ہے کیونکہ انکا وضع مضمون سے ظاہر ہو جاتا ہے،یہاں تقریبا سارے ہی علماء کی آراء اور اقوال نقل کر دیئے گئے ہیں،آخری بات مشہور سلفی الفکر محدث علامہ ناصر الدین البانی کی نقل کرتا ہوں:
وجملة القول أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب، والصحة تثبت بأقل منها عدداً ، ما دامت سالمة من الضعف الشديد كما هو الشأن في هذا الحديث

خلاصہ یہ کہ ان روایتوں کا مجموعہ بلا شبہ صحیح ہے،اور صحت حدیث تو اس سے کم مقدار میں بھی ثابت ہو جاتی ہے،اگر شدید درجہ کے ضعف سے خالی ہو،جیسا کہ اس حدیث کا حال ہے۔
   اقول: یہاں ایک پیمانہ بتا دیا گیا،ایک اصولی بات بتا دی،اور اوپر بندے نے احادیث کی تخریج کر دی ہے،اس سے عمل کے باب میں آسانی ہوگی۔

 تخریج و ترتیب: مفتی سراج الدین سیدات ہرنگامی